حوزه نیوز ایجنسی| 1979 کے فروری مہینے میں جب امام خمینی (رح) کی لیڈرشپ میں ایران کا اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو اس وقت پوری دنیا فرطہ حیرت میں گرفتار ہوگئی کہ ایک سیدھے سادے انسان نے کس طرح ڈھائی ہزار سالہ شاہی حکومت کو اکھاڑ پھینکنا؟ دنیا کے بعض سیاسی رہنما یہ سوچ رہے تھے کہ یہ انقلاب زیادہ دنوں تک باقی نہ رہ سکے گا اس لئے کہ ایک نئی آڈیولوژی اور نئے طرز پر حکومت کرنا آسان نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ایک ماہر سیاست دان ہونا چاہییے جو حکومت کرنے کا تجربہ بھی رکھتا ہو لیکن دنیا نے دیکھا کہ وہ جسے ناتجربہ کار اور نا عاقبت اندیش سمجھ رہے تھے اس کے ایک بعد ایک فیصلے نئی سیاست کو جنم دے رہے تھے اور پوری دنیا حیرت سے نظارہ گر تھی۔ شاید دنیا امام خمینی (رح) کو ایک عام سیاست دان سمجھ رہی تھی اور انہیں معلوم نہیں تھا یہ سیاست، سیاست علوی ہے جس میں عدل و انصاف کا نفاذ ہوتا ہے اور حکومت کے استحکام سے زیادہ حقوق اللہ اور حقوق الناس کی پرواہ ہوتی ہے۔ اسی لئے امام خمینی (رح) کے فیصلے ایسے تھے جو عام سیاست سے علیحدہ تھے اور اسی وجہ سے پوری دنیا میں بالخصوص مسلمانوں میں ایک نئی امید جنم لے رہی تھی۔ ان سخت فیصلوں میں سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ اور اسرائیل کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا اعلان قابل ذکر ہے۔
امام خمینی کے یہی انقلابی افکار تھے جس نے پوری دنیا میں ہدایت کے نئے چراغ جلا دیئے، اگرچہ محمد اقبال لاہوری علیہ الرحمہ جیسے راہروان ہدایت "جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی" کے شعار کے ساتھ قوم کو جگانے کیلئے مسلسل کوشش میں تھے لیکن ان کو بھی قوم کی بیداری کیلئے بیدار گر کا انتظار تھا اور کہا تھا "تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا؛ شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے" اور اسی وجہ سے تو " چون چراغ لالہ سوزم در خیابان شما" میں کہتے ہیں کہ "می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند دیدہ ام از روزن دیوان زندان شما"۔ لہذا ہم نے دیکھا کہ ایران میں علامہ اقبال کی وفات کے محض 41 سال بعد ہی خمینی نام کے ایک مرد مجاہد نے تمام غلامی کی زنجیروں کو توڑ دیا اور پوری ملت کو استعماری اور استکباری قوتوں سے آزادی کا مژدہ سنایا۔
امام خمینی (رح) نے فلسطین کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب دیکھا اور اس پر پوری توجہ بھی دی۔ آپ نے اسرائیل کے وجود کو سرے سے مسترد کر دیا اور تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ فیصلے بتا رہے تھے کہ یہ انقلاب، صرف ایرانی انقلاب نہیں بلکہ جہانی انقلاب ہے اور آنے والے وقت نے یہ ثابت بھی کر دیا کہ مظلوموں اور کمزورں کی مدد کرنا ایران کا نصب العین ہے اور اسلام کا مقصد بھی دنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ اور مستضعفین کی مدد کرنا اور ان کا حق دلوانا ہے۔خداوندعالم کا ارشاد ہے:
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (قصص/٥)
اور ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ ملک میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اُن پر احسان کریں اور اُن کو پیشوا بنائیں اور انہیں (ملک کا) وارث قرار دے دیں۔
یہ آیت سیاق و سباق اور تفاسیر کے مطابق بنی اسرائیل سے مربوط ہے کہ جب فرعون نے قوم بنی اسرائیل پر بے پناہ ظلم کئے اس نے بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کیا ان کی عورتوں کو اپنی کنیزی میں لے لیا اور جب فرعون کے خواب کی تعبیر میں کسی منجم نے اسے یہ پیشینگوئی کی کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تجھے اور تیری حکومت کا تختہ الٹ دے گا تو اس نے اپنی ظاہری طاقت کے بل بوتے پر وہ روکنے کی کوشش کی کہ جس کا ارادہ اللہ کر چکا تھا اور اس نے ہزاروں بچوں کو تہہ تیغ کروا دیا۔
شیعہ کتب احادیث میں اس آیت کی تفسیر امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ شریف کی حکومت جہانی کے سلسلے میں کی گئی ہے جو کہ حتمی ہے اور ان شاءاللہ ایک دن آئے گا کہ جب پوری دنیا میں عدل و انصاف کا پرچم لہرائے گا۔ لیکن ایک کلی چیز جو اس آیت میں موجود ہے وہ کمزورں اور مظلوموں کی بالا دستی اور ظالموں اور ستمگروں کی حکومت کا خاتمہ ہے مظلوموں کا حاکم اور ظالموں کا محکوم ہونا ہے۔ اور یہ ہر زمانے میں ہوگا اور ہوتا رہے گا اور اس زمانے میں بھی ایران کا اسلامی انقلاب اس آیت کی تفسیر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں پر خصوصی توجہ دی اور ان کی ہر طرح کی مدد کا اعلان کر دیا نیز ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے نام سے موسوم کر دیا۔ اور دنیا کے تمام مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو نابود کرنے کے لئے متحد ہو جائیں۔ آپ نے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ "اسرائیل باید از صفحہ روزگار محو شود" یعنی اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہیے۔
آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ "روز قدس کا تعلق صرف فلسطین سے نہیں ہے بلکہ یہ روز، روز اسلام ہے۔ یہ وہ روز ہے کہ جس میں بڑی طاقتوں کو یہ سمجھا دیا جائے کہ اب کمزور قوموں اور ملکوں پر حکومت کرنے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں روز قدس کو روز اسلام اور روز رسول اکرم (ص)سمجھتا ہوں اور اس دن ہم اپنے آپ کو ظالموں سے ٹکرانے کے لئے آمادہ کریں۔
روز قدس صرف فلسطینی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ دنیا میں جتنے بھی مظلوم ہیں ان سب کی حمایت میں کھڑا ہونا ہمارا شرعی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔
شرعی فریضہ:
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اور ان کو اپنی زمین سے بے دخل کر دیا گیا۔ خداوندعالم فرماتا ہے:
الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ....... وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
(الحج/٤٠)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے.....اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے۔
یعنی جن کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہو ان کی حمایت کرنا خدا کی مدد کرنا ہے۔ اگر آج ہم کسی کی مدد کریں گے تو دوسروں سے مدد کی امید کر سکتے ہیں ورنہ پھر ہمیں کوئی شکایت نہیں ہونا چاہیے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
«مَنْ سَمِعَ رَجُلاً يُنادى يا لَلْمُسْلِمينْ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِم»
جو شخص کسی ایسے مظلوم کی آواز سنے کہ جو مسلمانوں سے مدد طلب کر رہا ہو اور وہ اس کا جواب نہ دے تو مسلمان نہیں ہے۔
یعنی مسلمان ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ ایک مظلوم کی دادرسی کی جائے اور اس کا دفاع کیا جائے ورنہ ہم مسلمان نہیں ہو سکتے۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیه السلام فرماتے ہیں "كُونا لِظّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً" ظالم کے لئے دشمن اور مظلوم کے حامی بنو۔
اگر کوئی ظالم سے عداوت اور ناراضگی نہیں رکھتا تو وہ بھی ظلم میں اس کا شریک ہے۔ مظلوم کی مدد کرنا ہر اس شخص پر ضروری ہے جو ظلم کو پسند نہیں کرتا اور ظاہر ہے کوئی انسان ایسا نہیں ملے گا جو اپنے اوپر ظلم سے راضی اور خوش ہو۔ جب کہ ظلم پر رضامندی بھی انسان کو لعنت کا مستحق بنا دیتی ہے اور ایسا انسان بھی ظالموں کے زمرے میں شمار ہوتا ہے جیسا کہ ہم زیارت وارثہ میں بڑھتے ہیں کہ "لعن الله ُأمهً قتلتْکم، و لعن اللّهُ أمهً ظلمتکم، و لعن الله أمهً سمعتْ بذلک فرضیتْ به؛ " اے حسین (ع) جنہوں نے آپ کو قتل کیا ان لعنت ہو اور جنہوں نے آپ پر ظلم کیا ان پر بھی لعنت ہو اور جو لوگ سن کر خاموش رہے اور اس پر راضی رہے ان پر بھی لعنت ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ظلم پر خاموش رہنے والا اور اس پر راضی رہنے والا بھی ظالم کہلائے گا۔
اخلاق فریضہ:
اگر کوئی شخص یہ تصور کرے کہ میں تو ٹھیک ہوں میری جان و مال، عزت و آبرو محفوظ ہے لہذا مجھے کسی دوسرے کے مسئلے میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو یاد رکھئیے اس طرح کی سوچ ایسے انسان رکھتے ہیں جو انسانی اخلاق اور کرامات سے عاری ہوتے ہیں ان کی نظر میں صرف ذاتی مفاد ہوتا ہے ان کو کسی سے کوئی مطلب نہیں ہوتا لیکن یاد رکھئیے ایسے ہی لوگ جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور کوئی ان کی مدد نہیں نہیں کرتا تو یہی چیخ چیخ کر انسانیت کی دہائی دیتے ہیں اور لوگوں کی مدد کے متمنی ہوتے ہیں۔
انسانی فریضہ:
اگر کسی کا دین اور اخلاقیات سے کوئی تعلق نہ ہو اور وہ کسی بھی مذہب کو نہ مانتا ہو تو کم از کم اس کے اندر انسانی غیرت موجود ہوگی کہ جو فطری بھی ہے۔ یعنی وہ عادات و اطوار کہ جو ایک انسان میں صرف اس کی طبع کے مطابق ہو اور دیگر کسی چیز سے متاثر نہ ہو صرف اپنے دل کی آواز کو سمجھے۔
امام حسین علیه السلام نے اپنی شہادت سے پہلے دشمنوں کو خطاب کرکے فرمایا تھا کہ "ان لَم یَکُن لَکُم دینٌ فَکونوا اَحراراً فِی دُنیاکُم» اگر تم دین کو قبول نہیں کرتے اور کم از کم انسانی اقدار و کرامات کا پاس و لحاظ تو رکھو۔ معلوم ہوا کہ بے دین شخص کے اندر بھی غیرت انسانی موجود ہوتی ہے لہذا ایسے انسان بھی ظلم کو پسند نہیں کر سکتے۔ مظلوم کی نصرت کرنا ہر لحاظ سے ضروری ہے خواہ وہ کسی بھی قوم و قبیلہ، کسی بھی رنگ و نسل اور کسی بھی دین و مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ مظلوم صرف مظلوم ہوتا ہے۔
ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایران نے تمام امریکی اور بین الاقوامی ظالمانہ پابندیوں کے باوجود مظلوموں کی مدد کرنے میں کوئی دریغ نہیں کیا اور تمام مظلومین عالم من جملہ فلسطین، یمن، شام اور عراق کی بھرپور حمایت کی اور اسی راستے میں قاسم سلیمانی جیسے گرانقدر سرمایہ کو قربان کیا۔ لہذا اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہر طرح سے ایران کی پشت پناہی کی جاۓ اور ایران کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کیا جائے اس لئے کہ آج جو بھی ایران کے خلاف ہے وہ استعمار اور استکباری طاقتوں کی دانستہ یا نادانستہ طور پر مدد کر رہا ہے۔ لہذا قرآن کہتا ہے ۔۔۔وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔۔۔؛ نیکیوں اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور برائیوں میں اور ظلم و ستم میں کسی کی مدد نہ کرو۔ اس لئے مظلوموں کی حمایت ہم سب پر واجب ہے نیز جو لوگ ان کی حمایت کر رہے ہیں ان کی پشت پناہی اور مدد کرنا ہم سب کا شرعی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔
تحریر: سید محمد حیدر اصفہانی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔